URDU ADAB COLLECTIONS

انا کا قیدی از ریاب عاقب کوہلر (ایک مختصر افسانہ )

انا کا قیدی

(ایک مختصر افسانہ )

ریاض عاقب کوہلر




’آنٹی کہاں ہیں جی ؟“وہ ہاتھ میں ڈونگا پکڑے میرے کمرے میں داخل ہوئی۔
”محترما !....نہ تو یہ امی جان کا کمرہ ہے اور نہ کچن ،کہ تم یہاں امی جان کو تلاش کرتی پھر رہی ہو ؟“
اس نے معصومیت سے کہا ۔”آپ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا ....اس لیے چلی آئی ۔سوری معافی چاہتی ہوں ۔“
”معافی مانگنے کے بہانے مت تلاشا کرو ....اور اب براہ مہربانی تشریف لے جائیں۔“میں اسے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔
وہ سر جھکائے باہر نکل گئی ۔وہ ہمارے پڑوسی انکل احسن مجید کی بڑی بیٹی تھی ۔سائرہ نام تھا۔ مجھ سے محبت کی دعوے دار تھی اور کبھی اظہار کی جرات نہیں کر پائی تھی ۔مجھے بھی پسند تھی مگر جانے کیوں اسے ستانے میں مزہ آتا تھا ۔ اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ،اسے ہر وقت طنز و تشنیع کا نشانہ بنانا،اس کی کسی بات کو بھی درخور اعتناءنہ سمجھنا میری عادت ثانیہ تھی ۔اور وہ بھی عجیب مٹی کی بنی تھی کہ میری ہر خواہش ،ہر تمنا ، ہر بات پر عمل پیرا ہونا اپنا مذہب سمجھتی۔
٭........٭
”جمیلہ !....یہ کیا واہیات کلر پہنا ہوا ہے ؟“میں نے چھوٹی بہن جمیلہ کے گلابی لباس پر طنز کیا ۔ ”عورتوں کو صرف کالا لباس جچتا ہے سمجھیں ؟“
جمیلہ کہاں چپ رہنے والی تھی جھٹ بولی ۔”بھیا !....یہ رعب اپنی ہونے والی جورو پر جھاڑنا ۔میرا جو جی چاہے گا پہنوں گی ۔“
وہ جمیلہ کی گہری سہیلی تھی اور اس وقت بھی جمیلہ کے پاس بیٹھی تھی ۔زرد رنگ کے لباس میں سرسوں کے پھول کی مانند کھلی ہوئی ،سورج مکھی کے پھول کی جڑواں بہن لگ رہی تھی ۔میری بات پر تبصرہ کیے بغیر خاموش بیٹھی رہی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو ۔شام کو جب وہ جمیلہ سے ملنے آئی تو کالے لباس میں تھی اور اس کے بعد میں نے اسے ہمیشہ کالے لباس ہی میں دیکھا ۔
”امی جان !....کبھی کسٹرڈ بھی بنے گا اس گھر میں ؟“کھانے کے بعد میں نے حسبِ عادت واویلا کیا ۔
”اے لڑکے باؤلا ہوا ہے کیا ؟....رات میٹھے میں کسٹرڈ ہی تو بناتھا ؟اتنی جلدی بھول گیا ۔“امی جان نے سخت برا مناتے ہوئے کہا ۔حالانکہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ میں یہ کسے سنا رہا ہوں ۔سائرہ ،اس وقت جمیلہ کے کمرے میں موجود تھی اور ناممکن تھا کہ اس نے میری باتوں پر کان نہ دھرے ہوں ۔
”دن کو بھی بن جاتا تو کیا ہم غریب ہو جاتے ؟“میری تکرار جاری رہی ۔
”یہ کبھی نہیں سدھرے گا ؟“امی جان بڑبڑاتے ہوئے کچن میں گھس گئی ۔
شام کو کسٹرڈ کا ڈونگا امی جان کے حوالے کرتے ہوئے وہ کہہ ر ہی تھی ....
”آنٹی !....آج امی جان نے کسٹرڈ بنایا اور کہا میری بہن کو بھی دے آؤ۔“
”شکریہ بیٹی !....ادھر فرج میں رکھ دو ،میں خود بنانے لگی تھی ثاقب کی ضد ہوتی ہے روزانہ ،کبھی بنانا یاد رہتا ہے ،کبھی بھول جاتا ہے ۔اور جس دن بھول جائے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔“
ڈونگا فرج میں رکھ کر وہ جمیلہ کے کمرے میں گھس گئی اور اس کے بعد ہر دوسرے دن انکل احسن کے گھر میں کسٹرڈ بننے لگا جس سے ایک ڈونگا ہمارے گھر بھی لازماََ آتا۔ دونوں گھروں کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ اس بات کوامی جان یا ہمارے گھر کے کسی دوسرے فرد نے اہمیت نہیں دی تھی۔
٭........٭
”زہر لگتی ہے مجھے عورتوں کے ہاتھ پرمنہدی ۔“جمیلہ کو اپنی بھانجی اقصیٰ کے ہاتھوں پر منہدی کے ڈیزائن بناتے دیکھ کر میں تبصرہ کرنے سے باز نہ آ سکا ۔
اقصٰی نے معصومیت سے پوچھا ۔”کیوں ماموں؟....ابو جان تو کہتے ہیں عورتوں کے ہاتھوں پر منہدی اچھی لگتی ہے ۔“
”بس مجھے اچھی نہیں لگتی گڑیا!“یہ کہہ کر میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ بھی جمیلہ سے منہدی لگوانے کے لیے آئی تھی کیونکہ جمیلہ کو اس کام میں کافی مہارت حاصل تھی ۔میں جب لباس تبدل کر کےباہر نکلا تو وہ بغیر منہدی لگوائے واپس جا رہی تھی ۔
”سائرہ ....!تم کہاں چل دیں ؟“جمیلہ نے حیرانی سے پوچھا ۔”منہدی نہیں لگوانی ؟“
”باجی !....کل لگوا لوں گی ....ابھی مجھے ایک کام یاد آ گیا ہے“۔ کہہ کر وہ باہر نکل گئی اور پھر وہ کل کبھی نہ آ سکی ۔وہ یونہی کرتی، ہمیشہ میرے منہ سے نکلے الفاظ اس کے لیے حرف آخر ہوتے تھے ۔اور میں نے کبھی بھی براہ راست اسے مخاطب نہیں کیا تھا ۔بس کسی بھی تیسرے بندے کی عادت ،لباس وغیرہ کو ٹوک دیتا اور وہ جھٹ اس پر عمل پیرا ہو جاتی ۔یہ سلسلہ چلتا رہا وہ میری پسند کے سانچے میں ڈھلتی گئی ۔میں نے لپ اسٹک پر ناک بھوں چڑھا ئی اس کے گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ سرخی سے محروم ہو گئے ۔سرمے کو پسندیدہ کہا ،اس کی شہد انگیں آنکھیں سرمے کی آماجگا بن گئیں ۔ کانچ کی چوڑیوں کو اچھا کہا گندمی رنگت کی ریشمی کلائیاں کانچ کی ہتھکڑیوں سے سج گئیں ۔میں نے کہا....
”جمیلہ !....کبھی پراندا بھی باندھ لیا کرو ۔“اور سائرہ کے کالے بال پراندے کی گرفت میں آ گئے ۔اس سب کے باوجود اس نے کبھی اقرار محبت نہیں کیا تھا ۔کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے تم اچھے لگتے ہو ۔کبھی محبت بھرا خط نہیں لکھا تھا ۔اور میں منتظر تھا کہ وہ اظہار کرے۔کہے ....
”ثاقب !....آئی لو یو ،میں تم بن نہیں رہ سکتی،مجھے اپنا لو،اپنے ابو کو ہمارے گھر بھیج دو نا ؟ پلیز میرے اچھے ثاقب ۔“مگر میرا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔میں اپنی انا کے خول میں سمٹ گیا ۔اس سے بے اعتنائی برتنے لگا ،وہ گھر آتی، میں باہر نکل جاتا ۔وہ کسی سوال پوچھنے کے بہانے میرے قریب آتی اور میں ....
”میرے پاس وقت نہیں ہے ۔“کہہ کر اسے دھتکار دیتا ۔
”ابو جان ہر ماہ کے آخر میں پوری فیملی کو پکنک کے لیے لے جاتے ۔ایک دن اس نے بھی ہمارے ساتھ جانے کے لیے گھر سے اجازت مانگی جو آسانی سے مل گئی، مگرمیں اس دن طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے گھر رک گیا ۔ میں اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے کتنی قابل نفرت ہے ۔اور یہی وہ طریقہ تھا جس سے وہ میرے قدموں میں جھک جاتی ۔ محبت کی بھیک مانگتی ،میری انا کو تسکین ملتی اور اس کے بعد میں اسے اپنانے میں دیر نہ کرتا ۔آخر مجھے بھی تو وہ بہت عزیز تھی ۔مگر اپنی ساری چاہت ،بے پایاں محبت کے باوجود وہ میری یہ شرط پوری کرنے میں ناکام رہی ۔اس کی ہر ادا ،ہر حرکت ،ہر اشارہ چیخ چیخ کر مجھے یقین دلاتا....
”ثاقب میں تیری ہوں ،کیا تمھیں میری آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھنی نہیں آتی ؟کیامیری حرکات و سکنات سے پتا نہیں چلتا ؟....ضروری تو نہیں کہ میں چاہت کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لوں ۔تم کیوں نہیں سمجھتے شرم و حیا عورت کا دوسرا نام ہے ۔محبت ہونے کے باوجود عورت اظہار کی قدرت سے محروم ہوتی ہے ۔میں کیسے کہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے ؟....کیا میرا ہر عمل میرے احساست کا ترجمان نہیں ہے ؟....ثاقب ! تم مرد ہو اظہار کی جرات سے لبریز،تمھیں کوئی شرم مانع نہیں ہے ۔پلیز مجھے ٹوٹنے سے بچا لو ۔صرف ایک بار پہل کر لو ،میں اپنا پندار ،اپنی انااور خود کو تمھارے قدموں میں نچھاور کر دوں گی ،کسی آزمائش سے نہیں گھبراؤں گی ۔ہر امتحان میں سرخ رو ہو کر دکھاؤں گی ۔“
مگر میں پتھر بن گیا ۔میری انا کا خول روز بہ روز مضبو ط ہوتا گیا ۔میں جھکنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔اگر وہ چاہت کی دعوے دار تھی تو اسے اظہار کرنا چاہیے تھا ۔حالانکہ سوچا جائے تو اسے جھکنا نہیں کہتے ،اگر وہ چاہت کی دعوے دار تھی تو یہ جرم تو مجھ سے بھی سرزد ہوا تھا ۔اور پھر ایک دن میری انا نے عجیب رنگ دکھایا۔اس دن ابو جان نے شادی کے موضوع پر مجھ سے مشورہ کیا تھا ۔
”ثاقب بیٹے !....احسن صاحب،بہت اچھے ،عمدہ اور زبردست شخصیت کے مالک ہیں ۔اور ان کی بیٹی سائرہ مجھے جمیلہ ہی کی طرح عزیز ہے ۔“
”تو ....ابو جان ؟“میں جان بوجھ کر انجان بن گیا ۔
”تو یہ کہ وہ اس قابل ہے کہ اسے بہو بنا کر میں فخر کر سکوں ۔“ابو جان نے واضح الفاظ میں عندیہ دیا۔
”ابو جان !....آپ جانتے ہیں میری تعلیم ادھوری ہے ۔میں جب تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو جاتا یہ مناسب نہیں ہوگا۔“
”صرف منگنی سے شاید تیری تعلیم پر کوئی فرق نہ پڑے ؟“
”یقینا آپ صحیح کہہ رہے ہیں ،مگر میں فی الحال ایسا نہیں کر سکتا ۔“
ابو جان نے دبے لفظوں میں مجھے تنبیہہ کی ۔”بیٹا !....دیر کرنے سے ایک اچھا رشتا ہمارے ہاتھ سے جا سکتا ہے ۔ احسن بھائی ایک دو مرتبہ باتوں باتوں میں اشارہ کر چکے ہیں ۔بیٹی کے باپ ہیں واضح طور پر تو نہیں کہہ سکتے نا ؟“
”وہ واضح الفاظ میں کہے گا ۔اور خود چل کر آئے گا ۔اپنی لاڈلی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو یقینا اسے گوارا نہیں ہوں گے ؟“میں دماغ میں ابھری سوچ کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکا اور بات بناتے ہوئے بولا۔
”پاپا!....ہمیں رشتوں کی کمی تو نہیں ہے ؟“
”اوکے بیٹا !....جیسے تمھاری مرضی ۔“بجھے دل سے کہہ کر ابو جان وہاں سے اٹھ گئے ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ سائرہ کے شکست تسلیم کرنے سے پہلے، رشتے کی بات کرنا میری خودداری کے لیے تازیانہ تھا ۔میں ہار تسلیم نہیں کر سکتا تھا ۔وہ مجھ سے چار پانچ سال چھوٹی تھی ،گویا میرے ہاتھوں ہی میں پلی بڑھی تھی اور خود سے چھوٹی لڑکی سے دب جانا مجھے کیسے گوارا ہو سکتا تھا ۔
ابو جان کے بعد امی جان نے بھی اس موضوع پر بات کی مگر میں انھیں بھی ٹال گیا ۔جب امی جان مجھ سے رائے لے رہی تھیں اس وقت جمیلہ بھی وہاں موجود تھی اور میں جانتا تھا کہ وہ ساری بات سائرہ کو بتا دے گی اس وجہ سے میں نے کچھ زیادہ ہی سخت الفاظ میں امی جان کو منگنی سے منع کردیا ۔
دوسرے دن میرے انکارکا اثر اس کے چہرے پہ ثبت تھا ۔اس کی آنکھوں میں ہزاروں شکوے کروٹیں لے رہے تھے ۔چہرہ حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا تھا ۔مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے ۔اوراب جلد ہی اپنی شکست کا با ضابطہ اعلان کرنے کے لیے اسے میرے پاس آنا ہے ۔اورمیرا اندازہ درست نکلا۔
وہ اتوار کا دن تھا امتحانات سے فارغ ہو کر میں کچھ پر سکون سا تھا ۔اس لیے دن چڑھے تک سوتا رہا ۔ناشتا بھی نیند کی نذر ہو گیا تھا ۔اٹھ کر میں نے شاور لیا اور گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہونے لگا جو جمیلہ وہاں پٹخ گئی تھی۔ اسے اتوار کے دن میرا دیر تک سونا بہت برا لگتا تھا ۔مگر چھوٹی ہونے کے ناتے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ۔دروازہ کھٹکھٹا کر سائرہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ اب وہ مجھ سے پوچھ ہی کر کمرے میں داخل ہوتی تھی۔
”جی آجائیں ۔“میں بے نیازی سے بولا۔ 
”اسلام علیکم !....“کمرے میں داخل ہو کر اس نے سلام کیا اور خاموشی سے کھڑے ہو کرہاتھ مروڑنے لگی ۔
’وعلیکم سلام !“سلام کا جواب دے کر میں اپنے لیے تھرماس سے چائے کا دوسرا کپ بھرنے لگا۔
چند لمحے بعد بھی وہ کچھ نہ بولی تو میں نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
”جی فرمائیں ؟“حالانکہ اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر اپنی شکست کا اعلان کر رہی تھیں ۔ وہ ہار چکی تھی ۔اس کے اعصاب میرے پے در پے حملوں کی تاب نہیں لا سکے تھے ۔اس کی ریزہ ریزہ انا مجھے اپنے قدموں میں بکھری نظر آئی ۔
”وہ جی!....آنٹی گھر میں نہیں تھیں ....اور.... اور میں نے جمیلہ باجی کو ساتھ لے جانا ہے ۔سوچاآپ سے اجازت لے لوں ۔“
میں جانتا تھا وہ صریحاََ جھوٹ بول رہی ہے ۔امی گھر میں موجود تھی ۔وہ اظہار محبت کے لیے آئی تھی مگر اظہار کی جرات نہیں کر پائی تھی ۔میں نے اس کا جھوٹ ظاہر کرنا ضروری نہ سمجھا اور بولا ۔
”تو لے جاؤجمیلہ کو ....اس سے پہلے وہ تمھارے گھر کب اجازت مانگ کر جاتی ہے؟“
”شاید وہ شام تک نہ آ سکے ۔“اس کے لہجے میں دکھ کی جھلک تھی ۔
”ٹھیک ہے بتا دوں گا امی جان کو۔“میں نے بے پرواہی سے کندھے اچکے ۔پھر اسے وہیں کھڑے دیکھ کر پوچھا۔ ”اور کچھ ؟“
”وہ اصل میں آج ہمارے گھر کچھ مہمان آ رہے ہیں نا؟“وہ جانے پر آمادہ نظر نہ آئی۔ میں جانتا تھا وہ آج اپنی انا اور خودداری ہار کر ہی اس کمرے سے نکلے گی ۔
”پہلے کبھی نہیں آئے آپ کے ہاں مہمان ؟“
”اس قسم کے تو نہیں آئے ۔“وہ جھجکتے ہوئے بولی ۔
”کیوں ؟....ان کے سینگ ہیں کیا ؟“میں نے استہزائی اندازمیں پوچھا ۔
”میرے چاچا ہیں جی!....گاؤں میں رہتے ہیں ۔“
”مجھے تیرے چچا سے کیا لینا ؟“میں نے منہ بنایا۔
”ان کا بڑا بیٹا ڈاکٹر ہے۔ اس کے رشتے کے لیے آ رہے ہیں ۔“ میرے لہجے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔
میرے جی میں آیا ایک زور دار قہقہہ لگاؤں ۔وہ اپنے چچا کے کندھے پر بندوق رکھ کر فائر کرنا چاہ رہی تھی ۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ میں اس کی ساری چال بازیوں سے واقف ہوں۔میرے جذبات کو جاننا اس کے بس سے باہر تھا ۔
”اچھی بات ہے نا ؟....ایک ڈاکٹر کا رشتا قسمت والی لڑکیوں کو ملتا ہے ۔“اس کا دل توڑنے میں میں نے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا تھا ۔
اچانک اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے ۔مجھے لگا وہ جھپٹ کر میرا گریبان پکڑے گی اور چیخ چیخ کر پوچھے گی ....
”ظالم اور کس طرح اظہار کروں .... کتنا نیچے گرانا چاہتے ہو ؟“مگر میں بے حس بن کر اس کی شہد انگیں آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔اس کا غصہ بتدریج غم میں ڈھلااور آنکھوں کے کٹورے چھلکنے کو بے تاب ہو گئے ۔ ایک کرب آمیز سسکی لے کر وہ مڑی اورتیز قدموں سے باہر نکل گئی ۔
مجھے احساس ہوا کہ کچھ غلط ہوگیاہے ،میرے لب اسے روکنے کے لیے ہلے ۔تاکہ اس سے تفصیل پوچھوں آیا وہ سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ ۔بس بہت ہو گیا تھا۔ وہ عورت ذات ہو کر اس حد تک آ سکتی تھی تو مجھے ایک قدم بڑھ کر اسے تھام لینا چاہیے تھا ۔مگر افسوس اس وقت میری آواز نے ساتھ نہ دیا ۔لب ہلے مگر بے آواز ۔میری انا اب تک زندہ تھی ۔ میری مغرور سوچ نے کہا ....
”یہ اظہار نہیں تنبیہہ ہے،دھمکی ہے ،کہ اگرمیں نے اظہار نہ کیا ،اپنے والدین کو نہ بھیجا تو وہ کسی اور سے شادی کر لے گی ۔اگر مجھے اس کی ضرورت نہیں تواسے بھی میری ضرورت نہیں۔ بھاڑ میں جاؤ ں میں،اس کے لیے ڈاکٹر کا رشتا بھی آ سکتا ہے ۔“ 
ان تلخ سوچوں نے میرے ہونٹ سی دیے ۔اور اس سے پہلے کہ میں اس بارے مزید مغز کھپائی کرتا موبائل فون کی ٹون نے مجھے اپنی جانب متوجہ کر لیا ۔میرے دوست مظہر اقبال کی کال تھی ۔
”جی مظہر ؟“میں نے کال وصول کی ۔
”ثاقب کے بچے !....یاد نہیں ہے آج حسن ابدال جانا ہے ۔“وہ سخت غصے میں تھا ۔
”اوہ ....سوری ۔“مجھے ایک دم اپنے دوست قیوم کی شادی یاد آ گئی ۔وہ ہمارا ہم عمر اور کلاس فیلو تھا ۔ ساتویں کلاس تک وہ ہمارے گاؤں میں ہی پلا بڑھا تھا۔ مگر اس کے بعدوہ فیملی سمیت حسن ابدال شفٹ ہو گئے تھے ۔ لیکن یہ معمولی فاصلے ہماری دوستی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے تھے ۔ہمارا رابطہ پہلے دن کی طرح قائم تھا۔ موبائل فون نے یوں بھی فاصلوں کو سمیٹ لیا ہے ۔
”سوری کے بچے !....جلدی آؤ میں لاری اڈے میں منتظر ہوں ۔“
میں نے جلدی جلدی بیگ میں دو تین جوڑے کپڑے اور ایک دو ضرورت کی چیزیں رکھیں اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا ۔ہمیں وہاں دو تین دن لگ جانے تھے ۔ ابو جان سے میں پہلے ہی اجازت لے چکا تھا ۔ امی جان کو مطلع کر کے میں گھر سے نکل آیا۔مظہر بے چینی سے میرا منتظر تھا ۔
حسن ابدال ویگن اڈے پر قیوم ہمیں ریسیو کرنے پہنچا ہوا تھا ۔اگلا پورا ہفتہ شادی کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا ۔شادی کی تقریبات میں سب سے منفرد منظر مجھے دلہن کی رخصتی کا لگا ۔والدین کے گھر سے رخصت ہوتے وقت ماں باپ اور بہن بھائیوں کے گلے لگ کر رونا خوشی اور دکھ کا عجیب امتزاج تھا ۔میرے ذہن میں سائرہ کا خیال در آیا ۔
”شاید وہ بھی میری دلہن بنتے وقت یونہی آنسو بہائے ۔“یہ سوچ میرے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی۔اس کے ساتھ مجھے اس سے آخری ملاقات یاد آگئی ۔
”ان کا بڑا بیٹا ڈاکٹر ہے ۔“میری یاداشت نے اس کے الفاظ دہرائے۔
”ڈاکٹرنی صاحبہ !....ہاں یہی خطاب ٹھیک رہے گا شادی کے بعد ....ناک میں دم نہ کر دیا ڈاکٹر کا نام لے لے کر تو میرا نام بھی ثاقب نہیں ۔“اور پھر اسی دم میں نے فیصلہ کر لیا کہ جاتے ہی اسے اپنا آپ سونپ دوں گا ۔ ساری شکایتوں کا مداوا کر دوں گا ۔پکنک اورآؤٹنگ پر بھی لے جاؤں گا۔اس سے زیادہ ایک حیا والی کو آزمانا مناسب نہیں تھا ۔اور یقینا ابو جان اور امی جان نے بھی میرے فیصلے کو سراہنا تھا ۔
ہم شام ڈھلے ہی گاؤں واپس پہنچ سکے تھے ۔مظہر کو الوداع کہہ کر میں اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔دروازہ عشاءکی نماز کے بعد ہی کنڈی کیا جاتا تھا اس لیے مجھے دستک دینے کی ضرورت نہ پڑی ۔گھر میں داخل ہوتے وقت مجھے عجیب سا احساس ہوا جیسے کوئی بھی موجود نہ ہو ۔اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے امی جان کو آواز دی ۔
”امی جان !....میں آگیا ہوں ۔“عجیب رشتا ہے ماں کابھی، اولاد جتنی بھی بڑی ہو جائے ماں کی شفقت کی محتاج رہتی ہے ۔مگر میری پکار کے جواب میں ابوجان کمرے سے نکلے ۔
”ٹھیک ہے بیٹا!....تمھاری امی اور جمیلہ احسن صاحب کے گھر گئی ہوئی ہیں ۔“
”اس وقت ؟“مجھے حیرانی ہوئی ۔مگر ابو جان میرے سوال سے پہلے اپنے کمرے میں غائب ہو چکے تھے ۔ میں سر جھٹکتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہو گیا ۔
عشاءکی آذان کے بعد امی جان اور جمیلہ بھی واپس آ گئیں ۔اس وقت میں ڈرائینگ روم میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا ۔انھیں گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر میں طنز سے باز نہ رہ سکا ۔
”بڑے سیر سپاٹے ہو رہے ہیں ؟“
”خود دوست کی شادی کے لیے حسن ابدال ہفتہ گزار آیا ہے اور ہمیں پاس پڑوس میں جا کر سہیلی کی شادی میں شمولیت پر طعنے دئیے جا رہے ہیں ۔“جمیلہ حسب عادت چپ نہیں رہی تھی ۔البتہ امی جان نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا ۔
”کون سی سہیلی ؟“میں حیرانی سے مستفسر ہوا ۔
”جناب !....میری ایک ہی سہیلی ہے ۔سائرہ احسن مجید۔“
”کیا ....؟“مجھے لگا میری سانس رک رہی ہے ۔دل اتنی شدت سے دھڑکا کہ سینے سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہوگیا ۔میرے چہرے پر وحشت بھرے آثار نمودار ہوئے ۔امی جان کمرے میں جا چکی تھیں اور جمیلہ ٹی وی سکرین کی جانب متوجہ تھی اس لیے میرے تاثرات سے بے خبر رہی ۔البتہ میرے” کیا؟“ پر اسے حیرانی ضرور ہوئی تھی ۔ 
”آپ کو پتا نہیں ہے ؟“پھر اچانک اسے یاد آیا کہ میں تو ہفتہ بھر سے غائب ہوں ۔”ہاں آپ تو شاید اس دن دوست کی شادی میں چلے گئے تھے نا ؟....بس جس دن آپ گئے اسی دن اس کے کزن کا رشتا آگیا ۔بڑی پس و پیش کے بعد انکل نے ہاں کی کیونکہ اس کا بھائی “جھٹ منگنی پٹ ویاہ“ پر زور دے رہا تھا ۔ اس کے بیٹے نے حال ہی میں ایم بی بی ایس مکمل کیا ہے ۔ آئی سپیشلسٹ ہے، اسی ہفتے اس نے لندن کے لیے روانہ ہونا ہے۔ اور وہاں کی ثقافت ایسی نہیں کہ کوئی شریف لڑکا بھی وہاں پارسا رہ سکے ۔بجائے اس کے کہ اس کا بیٹا وہاں سے کوئی بدیسی دلہن ساتھ لے آتا ،باپ نے دیسی دلہن کا انتظام کر دیا ۔یقین کرو بڑی نصیبوں والی ہے میری سہیلی ۔حالانکہ بڑی حجت کی تھی انکل احسن نے ۔ ویسے ان کی ہچکچاہٹ کی اصل وجہ تو آپ تھے کیونکہ وہ غریب اب تک اس آس میں تھے کہ ہم سائرہ کا رشتا مانگ لیں گے ۔ اور گھر کی بات گھر میں رہے گی ۔مگر جب ابوجان نے بھی اتنے عمدہ رشتے کی طرف داری کی تو انھیں مجبوراََ ماننا پڑا ۔گو چچا باپ جیسا ہی ہوتا ہے مگر اپنے گھر سے تو دور ہو جائے گی نا سائرہ ....۔“جمیلہ اور بھی بہت کچھ بتاتی رہی مگر میرے ۔دماغ میں سائیں سائیں ہو رہی تھی ۔اگر وہ ٹی وی سکرین کی جانب متوجہ نہ ہوتی تو میرا وحشت زدہ چہرہ دیکھ کر ضرور ششدر رہ جاتی ۔
میں اسے بولتا چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ حیرانی کا اظہار کیے بغیر ٹی وی کی طرف متوجہ رہی ۔ اس کے خیال کے مطابق میں اس کی سہیلی کو ناپسند کرتا تھا۔کمرے میں گھستے ہی ضبط کا لاوہ پھوٹ پڑا اور گرم سیال میرا چہرہ بھگونے لگا ۔میری ضد اور ہٹ دھرمی نے یہ دن دکھایا تھا۔
”سائرہ !....“میں نے سسکی بھری ۔

تمھارا ہاتھ میرے ہاتھ سے یوں چھوٹ جائے گا 
اگر ہم کو خبر ہوتی اسے زنجیر کر لیتے

میرے آنسو بہتے رہے مگر رونے سے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہو سکا ۔میں نے اٹھ کر الماری کھولی ، ایک خانے میں ان تحائف کا ڈھیر لگا تھاجو میں اس کی ہر سالگرہ پر خرید کر الماری کی زینت بنا دیتا۔میرا ارادہ تھا کہ جس دن وہ اظہار محبت کرے گی یہ تمام اٹھاکر اس کے حوالے کروں گا ۔گو وہ میرے ان عزائم سے بے خبر تھی ۔اور اس کے نزدیک میں نے کبھی بھی اسے تحفہ دینا گوارانہیں کیا تھا ۔اس کے باوجود میری ہر سال گرہ پر وہ بڑے پیار سے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتی ۔اس کے تمام تحفے میں نے سنبھالے ہوئے تھے ۔اس کی دی ہوئی گھڑی ہمیشہ میری کلائی کی زینت بنی رہتی مگر گھر کے اندر میں اسے آستین میں چھپائے رکھتاکہ وہ دیکھ نہ لے ۔اس کا دیا ہوا قیمتی فاؤنٹین پین میں صرف ڈائری لکھنے کے لیے استعمال کرتا ۔اس نے رومانی ناولوں کا سیٹ بھی مجھے گفٹ کیا تھا ۔ہر ناول میں دو تین بار پڑھ چکا تھا۔اس کا موبائل میں نے سنبھال کر رکھا تھا کہ اسے پہلی کال اس موبائل فون سے کروں گا ۔میں نے اس کا دیا ہوا کریم کلر کا سوٹ پہن لیا ۔یہ میں نے پہلی ملاقات کے لیے رکھا ہوا تھا ۔
میرے سارے خواب ،سارے ارادے ، سارے عزائم انا کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ۔اس نے کئی بار ڈھکے چھپے اور واضح انداز میں مجھے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا تھا مگر ناکام رہی تھی ۔میں نے کچھ زیادہ ہی انتظار کرایا تھا اسے ۔
جمیلہ کھانے کا پوچھنے آئی میں نے بہانہ کردیا ۔
”دل نہیں چاہ رہا.... دیر سےکھایا تھا ۔“وہ خاموشی سے واپس مڑ گئی ۔
ساری رات میں نے انگاروں پر لوٹتے گزاری ۔کسی کروٹ چین نہیں آ رہا تھا ۔اگلے دن اس کی برات نے آنا تھا میں کمرے سے باہر نہ نکلا۔پھر میری سماعتوں میں شہنائی کی آواز گونجی ۔شاید برات پہنچ گئی تھی ۔
”بھیا !....کسی انسان سے اتنی نفرت بھی اچھی نہیں ہوتی ۔اب تو وہ ہمیشہ کے لیے اس گھر ،اس محلے سے جانے والی ہے ۔جاتے جاتے تو اسے مل لو ۔کیا سوچے گی وہ۔ پھر انکل احسن مجید کو کتنا دکھ ہو گا ۔دونوں گھروں کے اتنے قریبی تعلقات ہیں اور آپ دو قدم بھی چل کر نہیں جا سکتے ۔“جمیلہ نے اپنی رو میں کہتے ہوئے میرے اوپر سے کمبل کھینچ لیا ۔مگر میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی گھبرا گئی ۔میری آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں ۔
”بھیا کیا ہوا ؟....خیر تو ہے ؟“اس نے میرا جلتا ماتھا چھوا۔”اف!.... آپ کو تو بہت تیزبخار ہے ، پلیز لیٹے رہیے ۔“
”نہیں میں جاؤں گا ۔“میں ہمت کر کے اٹھ بیٹھا ۔اپنی زندگی جہنم بنانے والا میں خود تھا ۔اب چوروں کی طرح منہ چھپانے سے کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔
”بھیا !....اتنا بھی ضروری نہیں ہے ،پہلے آپ کی اپنی صحت ہے ۔“جمیلہ مجھے روکنے پر مصر ہوئی ۔
”کہا جو ہے؟.... جاؤں گا ۔“میں دھاڑا۔اور وہ کان دبائے باہر نکل گئی ۔میں چپل پہن کر باہر نکل آیا۔ وہ کپڑے جو میں نے اسے خوش آمدید کہنے کے لیے سنبھال رکھے تھے اسے الوداع کہنے کے لیے پہننے پڑ گئے تھے ۔ 
انکل احسن کے گھر کے دروازے پر ایک سجی سجائی کار کھڑی تھی۔میں ان کے گھر میں داخل ہو کر تھوڑا سا ہی آگے بڑھاتھا کہ اسی وقت اسے کمرے سے باہر لایا گیا ۔سرخ جوڑے میں وہ کوئی اپسرا دکھائی دے رہی تھی ۔جس دن میں نے کالے لباس کو پسندیدہ قرار دیا تھا اس کے بعد پہلا موقع تھا کہ وہ کسی اور لباس میں نظر آئی تھی ۔روایتی دلہنوں کے برعکس اس نے گھونگٹ اٹھایا ہوا تھا ۔اس کے چہرے کے تاثرات بالکل نارمل دکھائی دے رہے تھے ۔لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس گھر سے رخصت ہو رہی ہے۔اس کی آنکھیں بالکل خشک تھیں ۔مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھری ۔میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے گھورتا رہا ۔مجھے لگا میں گر پڑوں گا ۔اس کا ہر بڑھتا قدم گویا میرے بدن سے روح نکال کر لے جا رہا تھا ۔اور پھر مجھ سے صبر نہ ہو سکا۔اشکوں کا سیلاب پلکوں کا پشتہ توڑ کر بہہ نکلا۔ اس کی نظریں مجھ پر گڑی تھیں ۔وہ ٹھٹک کر رکی۔ اس کی آنکھوں میں پہلے حیرانی اور پھر کرب بھرے تاثرات نمودار ہوئے ۔ اس کے ساتھ اچانک اس کے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی اور وہ اپنی آنسو بہاتی والدہ سے لپٹ گئی۔ شاید میری آنکھوں سے بہتا پانی مجھے رسو اکر دیتامگر اس کی لرزہ خیز چیخ و پکار نے سب کو اس کی طرف متوجہ کر دیا اور میرے آنسوؤں کی لاج رہ گئی ۔اس پر پہلی بار میری خاموش محبت کا راز افشا ہوا تھا ۔ یہ راز اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ وہاں سے کار تک وہ جس طرح بلکتے ،مچلتے اور تڑپتے ہوئے پہنچی وہ ہر آنکھ کو اشک بار کر گیا۔ کار کے اندر بیٹھنے سے پہلے اس نے مڑ کر میری جانب دیکھا اور میں نے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے ۔انا اور خودداری کا دعوے دار محبت کی دیوی سے معافی کا خواست گار تھا ۔جب تک وہ میری جانب دیکھتی رہی میرے ہاتھ بندھے رہے ۔ وقت جیسے ساکت ہو گیا تھا ۔پھر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔پہلی بار اس کے سامنے میری ریسٹ واچ آستین سے باہر نکلی تھی ۔ گاڑی کے روانہ ہوتے ہی کسی نے میرے بندھے ہاتھوں کو جدا کیا ۔میں نے چونک کر دیکھا وہ جمیلہ تھی میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بولی ۔
”چلو بھیا گھر چلتے ہیں ۔“اور میں بھاری قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا ۔
ختم شد

Post a Comment

0 Comments