زوال پر تھی بہار کی رت
زوال پر تھی بہار کی رت
خزاں کا موسم عروج پر تھا
اداسیاں تھیں ہر ایک شے پر
چمن سے شادابیاں خفا تھیں
ان ہی دنوں میں تھی میں بھی تنہا
اداسی مجھ کو بھی ڈس رہی تھی
وہ گرتے پتوں کی سوکھی آہٹ
یہ صحرا صحرا بکھرتی حالت
ہمی کو میری کچل رہی تھی
میں لمحہ لمحہ سلگ رہی تھی
مجھے یہ عرفان ہو گیا تھا
حقیقت اپنی بھی کھل رہی تھی
کہ ذات اپنی ہے یوں ہی فانی
جو ایک جھٹکا خزاں کا آئے
تو زندگی کا شجر بھی اس پل
خموش و تنہا کھڑا ملے گا
مزاج اور خوش روی کے پتے
دلوں میں لوگوں کے مثل صحرا
پھریں گے مارے یہ یاد بن کر
کچھ ہی دنوں تک
مگر مقدر ہے ان کا فانی
کے لاکھ پتے یہ شور کر لیں
مزاج میں سرکشی بھی رکھ لیں
یا گریہ کر لیں اداس ہو لیں
تو فرق اسے یہ بس پڑے گا
زمین ان کو سمیٹ لے گی
ذرا سی پھر یہ جگہ بھی دے گی
کرشمہ قدرت کا ہے یہ ایسا
عروج پر ہے زوال اپنا
ہر ایک کو ہے پلٹ کے جانا
0 Comments
Thanks For Your Feedback
Regards,
Team ITZONEJATOI