URDU ADAB COLLECTIONS

ساغؔر صدیقی نے عید کس طرح منائی

ساغؔر صدیقی نے عید کس طرح منائی



ساغؔر صدیقی نے عید کس طرح منائی
عید کے دن میں اور حفیظ قندھاری صبح لوہاری میں مل گئے۔ہم یونہی قیصرِ سرائے میں جا رہے تھے تو ساغؔر وہاں مل گیا۔لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کے ساغر اپنی مخصوص کوٹھری کے باہر بیٹھا تھا اس نے ہمیں برآمدوں سے دیکھا تو حسبِ عادت اٹھ کر بولا۔"کمال ہی ہو گیا مجھے تو یاد ہیں نہیں تھا کہ آج عید ہے۔لنڈے بازار میں میری آنکھ کھُلی دُھلے دُھلائے لوگوں کو دیکھا تو یقین آ گیا کہ آج واقعی عید ہے اور میں یہاں سیدھا آ گیا۔تم سناؤ! واہ واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا کہ آپ لوگ بھی آ گئے۔میں نے رات کے چاند پر نظم لکھی ہےـ
ہم ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے۔چارپائی پر آلاتِ مدہوشی پڑے تھے۔ساغؔر نے انکو سمیٹا اور اپنی جوگیوں والی زنبیل میں رکھ کر چائے لانے کیلئے جانے لگا تو میں نے کہا ۔" ٹھرو ساغؔر میں چائے کیلئے کہہ آتا ہوں" ساغر نے ادھر ادھر سر ہلا کر کہا "نہ بابا! تم فقیر کے ڈھیرے پر آئے ہو اتنا تو اخلاق برتنے دو" ۔چائے آئے تو میدان سے دو شخص اور اآٹھ کر آ گئے۔ ساغؔر نے انہیں کہا" تُم بھی بیٹھو اور چائے پیو"۔ پھر ہمیں مخاطب کر کے "بولا پردیسی ہیں گھروں سے دور ہیں میرا تو دل چاہتا ہے سوئیاں تیار کروں پر کون اس الجھن میں پڑے"
دونوں پردیسی اسے حیرت سے تک رہے تھے جو مہربان ماؤں کیطرح انہیں پیالوں میں چائے ڈال کر دے رہا تھا میں ساغؔر سے اسکی تازہ 
نظم سننا چاہتا تھا لیکن ساغر نے خود ہی زنبیل سے ایک کاغذ نکالا اور بیٹھ کر نظم سنانے لگا ۔ وہ تحت الفظ میں نظم پڑھ رہا تھا


عید کا چاند ہے خوشیوں کا سوالی اے دوست
اور خوشی بھیک میں مانگے سے کہاں ملتی ہے
دست سائل میں اگر کاسئہ غم چیخ اٹھے
تب کہیں جا کے ستاروں سے گراں ملتی ہے
عید کے چاند ! مجھے محرم عشرت نہ بنا
میری صورت کو تماشائے الم رہنے دے
مجھ پہ حیراں یہ اہل کرم رہنے دے
دہر میں مجھ کو شناسائے الم رہنے دے
یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں !
کل وہی رنج کے، آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا
اتنے دن تو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے💔

(یونس ادیب کی کتاب "داستانِ ساغؔر" سے ایک اقتباس)


Post a Comment

0 Comments