URDU ADAB COLLECTIONS

میرے کمرے کے دریچے کے مقابل بادل

میرے کمرے کے دریچے کے مقابل بادل

میرے کمرے کے دریچے کے مقابل بادل
تیرتے تیرتے رُکتے ھیں، سِرک جاتے ھیں
جیسے اطفال چمن زار کے چھتناروں میں
تتلیاں ڈھونڈنے آتے ھیں، بھٹک جاتے ھیں

جانے کِس جذبہء تخلیق کے بہلاوے ھیں
آسماں پر یہ عناصر کے ملائم گالے
کبھی بگلے، کبھی قازیں، کبھی پُرھول پہاڑ
کبھی اُجلے، کبھی دھُندلے، کبھی یکسر کالے
ابھی اِک سانپ سا گُزرا تھا، ابھی ایک ہرن
لو وہ بِلّور کا اِک قلعہ نمودار ھوُا
اور یہ قلعہ جو بِکھرا تو کچھ ایسے ڈھب سے
دیکھتے دیکھتے زنجیرِ گراں بار ھوُا
میرے کمرے کے دریچے کے مقابل اس وقت
اِک کڑی تک بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کوئی نہیں
آسماں اب نظر آتا ھے کچھ ایسا ویراں
جیسے یہ فصل مشیّت نے کبھی بوئی نہیں
میں کہاں ھوُں مِری تنہائیو! میرے خوابو!
میری مجبوُر اُمنگو! مِری پیاسی نظرو!
یہ کوئی زیست کا لمحہ ھے کہ سکرات کا پُل
میرے ماحول کے کہرے میں ذرا جھانکو تو
میری سانسوں کی صدا، میری گھڑی کی ٹِک ٹِک
اِس کُچلتے ھوُئے سناٹے سے کیا اُلجھیں گی
پِھر سے آباد ھوُا جب یہ دریچے کا شگاف
اُلجھنیں مِرے خیالوں کی جبھی سُلجھیں گی

شاعر : احمد ندیم قاسمی


Post a Comment

0 Comments