بچھڑنے_کی_بھی_کیا_آواز_ہوتی_ہے
بچھڑنے_کی_بھی_کیا_آواز_ہوتی_ہے
بہت کچھ کہ لیا میں نے
حد آغاز سے
اس ملگجے گہرے اندھیرے تک
سفر میں ، ہر قدم لگتی ہوئی
ٹھوکر کو بھی
آواز دی میں نے
اسی بیٹھی ہوئی آواز میں
کہتا رہا ہوں میں
فسانے زندگانی کے
کہیں پر ہجرتوں کی اندھی رنگت میں
کہانی اپنے ہونے کی
سنو ..
اب میں تمہارا ہوں ،
نہ اپنا ہوں
مگر اک سر گزشت نکہت گل بھی ہوں
مٹی پر کھدی
آواز بھی میں ہوں ..
مرے گیتوں کی لرزش سو گئی شاید
تمھاری ہی سماعت میں
کہیں جا کر
بچھڑنے کی بھی کیا آواز ہوتی ہے ؟
ملا تھا رزق آوازوں کا..
سو ، اب کھینچتا ہوں ہاتھ ، دستر خوان سے
اترتی ہے رگ و پے میں
تمھاری گنگناتی گفتگو کی سرسراہٹ بھی
کبھی تو کاٹتی جاتی ہے پہلو کو
کہ خنجر بھی کہیں
آواز میں رکھ کر نکلتے ہو
گزشتہ کی گزرگاہیں
ابھرنے والے وقتوں کی صدا
کہتی رہے کچھ بھی..
کہو ، دل کھول کر
آواز کو کاندھے پہ دھر کر
پھینک دو ہر سمت
کہ ڈالو جو کہنا ہے
نہ گوش ہوش ہے کوئی
نہ مد ہوشی میں ہی لپٹی ہوئی
کوئی سماعت ہے
مجھے .. اب کچھ نہیں کہنا
0 Comments
Thanks For Your Feedback
Regards,
Team ITZONEJATOI