کبھی یوں بھی آ میری آنکھ میں
کہ میری نظر کو خبر نہ ھو
مجھے ایک رات نواز دے
مگر اس کے بعد سحر نہ ھو
وہ بڑا رحیم و کریم ھے
مجھے یہ صفَت بھی عطا کرے
تجھے بُھولنے کی دعا کروں
تو میری دعا میں اثر نہ ھو
مرے بازوؤں میں تھکی تھکی
ابھی محوِ خواب ھے چاندنی
نہ اٹھے ستاروں کی پالکی
ابھی آھٹوں کا گزر نہ ھو
یہ غزل کہ جیسے ھرن کی آنکھ میں
پھیلی رات کی چاندنی
نہ بجھے خرابے کی روشنی
کبھی بے چراغ یہ گھر نہ ھو
وہ فراق ھو کہ وصال ھو
تیری یاد مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا؟؟
جو چراغ بن کے جلا نہ ھو
کبھی دُھوپ دے کبھی بدلیاں
دل و جاں سے دونوں قبول ھیں
مگر اس نگر میں نہ قید کر
جہاں زندگی کی ھوا نہ ھو
کبھی دن کی دُھوپ میں جُھوم کے
کبھی شب کے پُھولوں کو چُوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا
کبھی ختم اپنا سفر نہ ھو
میرے پاس مرے حبیب آ
ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں
کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ھو
"ڈاکٹر بشیر بدر"
0 Comments
Thanks For Your Feedback
Regards,
Team ITZONEJATOI