URDU ADAB COLLECTIONS

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلومیں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے






احمد فراز کی ایک نظم جو انہوں نے بھارت میں ہونے والے ایک مشاعرے میں ہندوستانیوں کو مخاطب کر کے پڑھی تھی
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں

تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں

ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے

بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں

تمہارے دیس میں آیا ہوں اب کے دوستو
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

احمد فراز

Post a Comment

0 Comments