تین سال قبل لکھی گٸی
باغی و بیزار نظم
از محسن منشا
رہا نہیں جب کچھ بھی پاس لٹانے کو
آیا وہ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کو
ہار محبت کا پہنے ہیں ہم ہارے ہوئے
گر چارہ نہیں کوئی تو بیچارے ہوئے
ہمیں اب کیا کوئی رلائے گا
لحد پہ آ کے کوئی منائے گا
پاس ہمارے نہیں رہا کچھ کھونے کو
تیرا تو کیا اب صدیاں ہیں اپنا ہونے کو
جو تیز بھاگتے رہے لڑکھڑاتے رہے
پر ہمیں تو یونہی چکر آتے رہے
آنکھ اٹھاتے ہیں تو جھک جاتی ہے
اپنے آپ سے بھی اب تو شرم آتی ہے
تمہیں جو لگیں باتیں میری عجیب خدارا مت سنو
کہ ہم ہیں فقط مسافر تم اپنا رستہ چنو
ہم ہم نہ رہے ختم ہو گئے
پورے اب سارے ستم ہو گئے
کوئی بات ہی نہیں رہی اب کرنے کو
آنسو کہاں سے لائیں آہیں بھرنے کو
چپ چاپ رہتے ہیں خامشی سے
شکوہ نہیں کرتے کسی کی خوشی سے
ہمیں نہ سکھاؤ یہ ہوتا ہے وہ ہوتا ہے
ہمیں اب دیکھ کے بتاؤ جو ہوتا ہے
مایوسی تو گناہ ہے مگر کیسا گناہ
دنیا سے دل جو ٹوٹا ٹوٹا ہوا رہا
کل پھر سے ہو شروعات سونے دو اب مجھے
0 Comments
Thanks For Your Feedback
Regards,
Team ITZONEJATOI